غزل
وفا کی سر زمینوں پر جب بھی چاندنی دیکھی
ساری اپنی راہوں میں بہت روشنی دیکھی
کیا میں نے دیکھا تھا اُس اجنبی کی آنکھوں میں
ہر طرف اپنے زندگی ہی زندگی دیکھی
جو میں نے سمجھا تھا ایسا کچھ نہیں پایا
اُ س کی ساری باتوں میں عجب بے رخی دیکھی
دل کو اپنے سمجھایابھولنا اُس کو اچھا ہے
بھول ہی نہ پائی کیسی بے بسی دیکھی
محبت اپنی بھی رائیگاں گئی آخر
چھو بھی نہ پائے ہم کیسی یہ خوشی دیکھی
پھول جیسے رستوں پر خار ہی ملے آخر
خوشبو کو پانے کی سزا بہت کڑی دیکھی
بھلانے سے نہیں بھولا یاد ہی بہت آیا
جب بھی اپنی آنکھوں میں ساون کی جھڑی دیکھی
غرور اپنی ذات پہ ہم کو تھا بہت جاناں
ٹوٹ کے بکھرنے میں اپنی ستم گری دیکھی
اُس کو میں نے چاہا ہے اپنی ذات سے بڑھ کر
محبت میں مگر اُس کی کمی ہی بہت کمی دیکھی
محبت کیسا جذبہ ہےوہ کچھ بھی نہیں سمجھا
اُس کے سارے جذبوں پر برف سی جمی دیکھی
میری بند آنکھوں میں سارے اُس کے سپنے ہیں
کھولی جب بھی بند آنکھیں نمی ہی بس نمی دیکھی
فاطمہ
No comments:
Post a Comment