محبت کا حصار
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہوں پہ چلنا مشکل
انجان راہیں نہ کوئی رہبر
چلنا دوبھر ٹھہرنا مشکل
تو ایسی راہ پہ کیا کروں میں
جہاں کہنا آساں کرنا مشکل
منزل کی مجھ کو خبر نہیں ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
ہیں دوست سارے سمجھانے والے
ہر گھڑی ہر پل بہلانے والے
سوال میرے کیا ہیں اتنے مشکل
نہیں ہے کوئی سلجھانے والے
جس سے پوچھوں یہی کہے ہے
ہیں قصے سارے بھلانے والے
یہ دور ایسا جا رہا ہے
محبتوں پہ کسی کو یقیں نہیں ہے
یہ کیسی طلب ہے کے بڑھ رہی ہے
میں کس سے پوچھوں سوال سارے
خواب سارے خیال سارے
گھٹن ہے اتنی کی جینا مشکل
نبھانے پڑھ رہے ہیں وبال سارے
جو میری آنکھوں میں ٹھہر گئے ہیں
یہ اُس نے دیے ہیں کمال سارے
یہ زندگی کھیل کیا کر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
انا کو اپنی بھلا دیا ہے
یہ سب کچھ اپنا گنوا دیا ہے
کہ جب بھی میں نے ہنسنا چاہا
زندگی تو نے مجھ کو رُلا دیا ہے
تھا ذات پہ اپنی غرور مجھ کو
یہ کس نے مجھ کو جھکا دیا ہے
جب اُس کی مرضی پہ خود کو چھوڑا
تو آنکھ میری کیوں بھر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہ سے جو خالی جاؤں
بہت مانگا اور کچھ نہ پاؤں
تو زمانے والے کیا کہیں گے
یہ دکھ میرے مولا کسے بتاؤں
تیری رضا پہ خوش میں بہت ہوں
رضا تیری یہ ہے تو پھر میں اور کیا چاہوں
طلب میری نہ چھوڑے مجھ کو
کہ ضد پہ اپنی یہ اڑ گئی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب نے میری ذات توڑی
نیند توڑی رات توڑی
اس نے مجھ کو کیا دیا ہے
جیت چھوڑی مات چھوڑی
وعدے توڑے ہر بات توڑی
زندگی تجھ سے کیا مانگوں میں
کہ سانس میری مر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
انا کو اپنی بھلا دیا ہے
یہ سب کچھ اپنا گنوا دیا ہے
کہ جب بھی میں نے ہنسنا چاہا
زندگی تو نے مجھ کو رُلا دیا ہے
تھا ذات پہ اپنی غرور مجھ کو
یہ کس نے مجھ کو جھکا دیا ہے
جب اُس کی مرضی پہ خود کو چھوڑا
تو آنکھ میری کیوں بھر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہ سے جو خالی جاؤں
بہت مانگا اور کچھ نہ پاؤں
تو زمانے والے کیا کہیں گے
یہ دکھ میرے مولا کسے بتاؤں
تیری رضا پہ خوش میں بہت ہوں
رضا تیری یہ ہے تو پھر میں اور کیا چاہوں
طلب میری نہ چھوڑے مجھ کو
کہ ضد پہ اپنی یہ اڑ گئی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب نے میری ذات توڑی
نیند توڑی رات توڑی
اس نے مجھ کو کیا دیا ہے
جیت چھوڑی مات چھوڑی
وعدے توڑے ہر بات توڑی
زندگی تجھ سے کیا مانگوں میں
کہ سانس میری مر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
فاطمہ
No comments:
Post a Comment