Sunday, 26 July 2015

Poem love محبت کا حصار



 محبت کا حصار
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہوں پہ چلنا مشکل
انجان راہیں نہ کوئی رہبر
چلنا دوبھر ٹھہرنا مشکل
تو ایسی راہ پہ کیا کروں میں
جہاں کہنا آساں کرنا مشکل
منزل کی مجھ کو خبر نہیں ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
ہیں دوست سارے سمجھانے والے
ہر گھڑی ہر پل بہلانے والے
سوال میرے کیا ہیں اتنے مشکل
نہیں ہے کوئی سلجھانے والے
جس سے پوچھوں یہی کہے ہے
ہیں قصے سارے بھلانے والے
یہ دور ایسا جا رہا ہے
محبتوں پہ کسی کو یقیں نہیں ہے
یہ کیسی طلب ہے کے بڑھ رہی ہے
میں کس سے پوچھوں سوال سارے
خواب سارے خیال سارے
گھٹن ہے اتنی کی جینا مشکل
نبھانے پڑھ رہے ہیں وبال سارے
جو میری آنکھوں میں ٹھہر گئے ہیں 
یہ اُس نے دیے ہیں کمال سارے
یہ زندگی کھیل کیا کر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
انا کو اپنی بھلا دیا ہے
یہ سب کچھ اپنا گنوا دیا ہے 
کہ جب بھی میں نے ہنسنا چاہا
زندگی تو نے مجھ کو رُلا دیا ہے
تھا ذات پہ اپنی غرور مجھ کو
یہ کس نے مجھ کو جھکا دیا ہے
جب اُس کی مرضی پہ خود کو چھوڑا 
تو آنکھ میری کیوں بھر رہی ہے 
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہ سے جو خالی جاؤں
بہت مانگا اور کچھ نہ پاؤں
تو زمانے والے کیا کہیں گے
یہ دکھ میرے مولا کسے بتاؤں
تیری رضا پہ خوش میں بہت ہوں
رضا تیری یہ ہے تو پھر میں اور کیا چاہوں
طلب میری نہ چھوڑے مجھ کو
کہ ضد پہ اپنی یہ اڑ گئی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب نے میری ذات توڑی 
نیند توڑی رات توڑی 
اس نے مجھ کو کیا دیا ہے
جیت چھوڑی مات چھوڑی
وعدے توڑے ہر بات توڑی
زندگی تجھ سے کیا مانگوں میں
کہ سانس میری مر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
انا کو اپنی بھلا دیا ہے
یہ سب کچھ اپنا گنوا دیا ہے 
کہ جب بھی میں نے ہنسنا چاہا
زندگی تو نے مجھ کو رُلا دیا ہے
تھا ذات پہ اپنی غرور مجھ کو
یہ کس نے مجھ کو جھکا دیا ہے
جب اُس کی مرضی پہ خود کو چھوڑا 
تو آنکھ میری کیوں بھر رہی ہے 
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب کی راہ سے جو خالی جاؤں
بہت مانگا اور کچھ نہ پاؤں
تو زمانے والے کیا کہیں گے
یہ دکھ میرے مولا کسے بتاؤں
تیری رضا پہ خوش میں بہت ہوں
رضا تیری یہ ہے تو پھر میں اور کیا چاہوں
طلب میری نہ چھوڑے مجھ کو
کہ ضد پہ اپنی یہ اڑ گئی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے
طلب نے میری ذات توڑی 
نیند توڑی رات توڑی 
اس نے مجھ کو کیا دیا ہے
جیت چھوڑی مات چھوڑی
وعدے توڑے ہر بات توڑی
زندگی تجھ سے کیا مانگوں میں
کہ سانس میری مر رہی ہے
یہ کیسی طلب ہے کہ بڑھ رہی ہے

فاطمہ


No comments:

Post a Comment