Friday 31 July 2015

Urdu design poetry urdu sms sad love and romance Ghazal



 غزل

نیند نیند آنکھیں ہیں خواب بھی پرانے ہیں 
پہرے کیوں بٹھائیں ہم کس نے یہ چرانے ہیں
عادت خود کلامی کی اور اپنے آپ سے لڑنا

وہ بھی قصے کافی ہیں تم کو جو سنانے ہیں
باتیں اتنی ساری ہیں خود سے چھپائی ہیں

راز اتنے سارے ہیں تم کو جو بتانے ہیں
وفا اُس سے کیا مانگوں بے وفائی ہی اُس کی عادت ہے

یہ وعدے کیسے وعدے ہیں جو ہم نے ہی نبھانے ہیں
کہاں سے اُس کا ناطہ تھا، تھا وہ کسی بستی سے آیا

کس سے اُ س کا پوچھوں میں
وہاں پہ بھی نہیں ملتا جو اُس کے ہی ٹھکانے ہیں

دعائیں لاکھوں مانگی ہیں پھر دل سے کیوں نہیں جاتا
یہ شاعری بھی کتابیں بھی بھلانے کے بہانے ہیں

وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا کہ زندگی ہیں تیری آنکھیں
اب آنکھوں میں جو ٹھہرے ہیں وہ آنسو ہی بہانے ہیں

عجب عادت تھی اُس کی وہ زعم اپنے میں رہتا تھا
اپنے آپ سے لڑتے ہیں کیسے ہم دیوانے ہیں

اب کے میں نے سوچا تھا بازی میںہی جیتوں گی
جیت کے میں ہاری ہوں حقیقت ہے فسانے ہیں

written by fatima

No comments:

Post a Comment