گئے دنوں کا عکس
یہ اُن دنوں کا قصہ ہے جب ہر روز ہی بحثیں ہوتی تھیں
ہم گھنٹوں لڑتے رہتے تھے سب لا حاصل باتیں ہوتی تھیں
ٌٌٌِِ؛آج بات سیاست پہ تم مت کرنا ؛
یہ اُس کا کہنا ہو تا تھا
کچھ شامیں خاص بھی ہوتی ہیں نا
میں اُس کو ٹوک کے کہتی تھی
میں ورلڈ ٹؤر قصے سننا نہیں چاہتی
پھر وہ ہنس کر مجھ سے کہتا تھا
چلو بات کریں ہم شو بز پہ یا قیمتوں کے بڑھ جانے پہ
کچھ فطرت میری ایسی تھی اُ س کا ایسا کہنے پر
میں اکثر ہی چڑ جاتی تھی
پھر ایسا ہوتا تھا تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد
وہ میری ذات کو موضوع کر لیتا
وہ ایسی ہی ایک شام سہانی تھی
کچھ کالے بادل چھائے تھے
سرد ہوائیں چلتی تھیں
کچھ بوندیں دھرتی کی پیاس بجھاتی تھیں
مٹی کی خوشبو نے تن من کو مہکایا تھا
پھر کالے گھپ اندھیرے میں مجھ سے وہ یوں بولا
میں تم سے محبت کرتا ہوں میں نام تیرے پہ مرتا ہوں
میرے اندر کی لڑکی اُس کو منہ چڑھا کر بولی
تم نام پہ میرے مرتے ہو
میں نام تیرے پہ جیتی ہوں
تو منفی سوچ کا مالک ہے
میں سوچ تو مثبت رکھتی ہوں
میں مثبت سوچ کی مالک لڑکی
یہ سوچتے سوچتے تھک گئی ہوں
اس انا میں کیا رکھا تھا
میں کس مشکل میں پڑگئی ہوں
وہ سوچ کو منفی رکھنے والا
اُس دنیا میں رہتا ہے
جہاں خوشیا ں دیپ جلائے
اس کے آنگن میں رقصاں رہتی ہیں
written by. Aziz Fatima
No comments:
Post a Comment